"زندگی ہر قدم اک نئی جنگ ہے”
اس جہان فانی میں انسان ایک مختصر عرصے کے لئے آیا ہے یہ عرصہ گزار کر اسے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ کر چلے جانا ہے۔ اسے ہم زندگی کہتے ہیں لیکن اکثر شعراء نے اس فانی زندگی کو ایک مختصر سفر سے تعبیر کیا ہے جیسے غالب کہتے ہیں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
واقعی زندگی کا بے قابو گھوڑا سرپٹ دوڑے چلا جا رہا ہے اور نجانے کب رک جائے اور اس عارضی سفر کا خاتمہ ہوجائے ایک اور شاعر کہتا ہے
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں، بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
غرض اس فانی زندگی کا کوئی اعتبار، کوئی ضمانت نہیں لیکن افسوس ہم انسان اس دنیا سے دل لگا بیٹھتے ہیں بلکہ اس کے حصول کے لئے بسا اوقات زندگی کی بازی ہی لگا دیتے ہیں۔یہ سب ہماری نظروں کا دھوکہ اور یہاں مستقل قیام کے ارادوں کا اظہار ہے پھر اس چند روزہ زندگی کی خوشی و خوشحالی کے لئے ہم دیگر تمام انسانوں Read More کے حقوق چھیننے اور سب کچھ سمیٹنے کے لالچ اور ہوس میں ان پر زندگی تنگ کر دیتے ہیں۔
Post Your Ad Here

Comments